بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق!
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
बे ख़तर कूद पड़ा आतिशे नमरूद में इश्क़!
अक़्ल है महवे तमाशाये लबे बाम अभी
be khatar kud padaa aatish-e-namrood mein ishq
aqal hai mahv-e-tamashaye lab-e-baam abhi
الفاظ و معنی:۔
آتش: آگ۔
محوِ تماشا: حیرانی کے ساتھ کوئی واقعہ دیکھنا۔
لب بام: چھت کا کنارہ
تشریح:۔
ابراہیم ؑ نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ میں خود نہیں کود پڑے تھے بلکہ انھیں نمرود کے حکم پر اس میں زبردستی ڈالا گیا تھا۔ ’’ کود پڑنے‘‘ کی بات لکھ کر شاعر یہ حقیقت اجاگر کرنا چاہتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اندر آگ میں کسی خوف کے بغیر، ڈال دیے جانے کی جو آمادگی اور ہمت پیدا ہوئی وہ اسلام اور توحید سے قلبی تعلق (عشق) کے نتیجے میں تھی۔ ورنہ اُس وقت اگر عقل کی کارفرمائی ہوتی تو وہ حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالے جانے سے بچنے کی تدبیریں سمجھاتی۔ لہٰذا ’عشق‘ اپنا کام کر گیا اور عقل دنگ رہ گئی، حیرانی سے یہ منظر دیکھتی رہ گئی۔ اقبال ؔ مسلمانوں کو ایسے ہی عشق کا درس دیتے اور اسلام اور اللہ سے بے تحاشہ محبت کے مقابلے میں عقل و منطق کی حیلہ سازیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔